ایک روزہ سیمی نار میر تقی میر: تین صدیوں کا سفر
24 May 2023
۲۴ مئی ۲۰۲۳ ءبروز بدھ دن تین بجے بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی کے کلیہ زبان و ادب کے حلقہ خیال نے اقبال انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فور ریسرچ اینڈ ڈا ئیلاگ کے اشتراک سے میر تقی میر کے حوالے ایک ادبی تقریب کا انعقاد کروایا۔ ۔میر کے حوالے سےمنعقد کی گئی تقریب کا عنوان “میر تقی میر تین صدیوں کا سفر” تھا۔میر تقی میر کا سنہ پیدائش ١۷۲۳ ءہے۔اسی مناسبت سے ۲۰۲۳ ءمیں ان کی پیدائش کو تین صدیاں مکمل ہو چکی ہے اس تقریب کا انعقاد اسی مناسبت سے کیا گیا تھا۔ میر اردو کلاسیکی شاعری کا اہم نام ہے۔ انھیں خدائے سخن کہاجاتا ہے۔ ہر خاص و عام میر کے کلام سے واقف ہے۔ خصوصا اردو ادب کی طلبہ و طالبات کے لیے میر کی شخصیت اور شاعرانہ حیثیت پر گفتگو کو سننا خاص اہمیت کا حامل ہے۔ تقریب میں بین لاقوامی اسلامی یونی ورسٹی کےکلیہ زبان و ادب کے صدور، انچارجز، اساتذہ و طلبہ کے علاوہ یونی ورسٹی کے باہر سےبھی مہمانوں نے شرکت کی۔
تقریب کا با قاعدہ آغاز قر آن پاک کی تلاوت سے ہوا۔ تقریب کی نظامت کا فریضہ ڈاکٹر بی بی امینہ نے سر انجام دیا ۔ڈین کلیہ زبان و ادب پروفیسر ڈاکٹر نجیبہ عارف نے تقریب میں ابتدائی کلمات اداکیے۔ میر کے کلام پر چند بنیادی باتوں کے بعد تمام اساتذہ و طالبات کو تقریب میں خوش آمدید کہا۔ مہمان مقرر احمد جاوید صاحب کی آمد پر ان کا شکریہ ادا کیا ۔ شعبہ اردو کے استاد ڈاکٹر عزیز ابن الحسن نے تقریب کے حاضرین اور طلبا وطالبات کواحمد جاوید صاحب سے متعارف کروایا۔
تقریب میں میر تقی میر کے حوالے سے کلیدی خطبہ پاکستان کے علمی و ادبی حلقوں کے نامور نام احمد جاوید صاحب نے دیا۔ انھوں نےمیر کی شاعری میں تصویر کشی پر مفصل گفتگو کی۔میر کی امیجری کی وضاحت کے لیے فارسی اور اردو کے اہم شاعروں سے میر کے فن کا تقابل کر کے پیش کیاجیسے کے فردوسی کے فن کا جائزہ لیتے ہوئے واضح کیا کہ وہ آوازوں سے تصویریں بناتا ہے۔ ان میں ایک بصری گونج پیدا کر دیتا ہے جبکہ غالب اور اقبال کے ہاں دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ تصویر بنانے کا عمل الگ کینوس پر ہورہاہے۔اقبال کے ہاں انفسی اور کچھ جگہ آفاقی ہے۔ غالب کا کینوس آفاقی ہے مگر ان سب کی تصویر یں مکمل ہے۔
احمد جاوید صاحب نے میر کی امیجری کو مصوری کی اصطلاحات کے ساتھ واضح کرتے ہوئے بتایا کہ ان کی تصویر کی ساخت نقش یا فوٹو گراف کی طرح نہیں ہوتی یعنی مکمل نہیں ہوتی بلکہ وہ سکیچ کی طرح ہوتی ہےایک ادھوری تصویر ہوتی ہے۔ گو کہ ان کا کینوس غالب اور اقبال کی طرح بڑا نہیں ہےبلکہ محدود ہے۔ وہ تصویر کو خاکے کی صورت بناتے ہیں اورقاری پر بھروسہ کرتے ہیں کہ وہ خود اس تصویر مکمل کرے۔ میر قاری کو شریک حال بناتے ہیں۔ میر کی اکثر اشعار ایسے ہیں کہ ان کی تکمیل قاری کے با ذوق مطالعے سے ہوتی ہےان کی شاعری قاری کو ذہنی سرگرمی مہیا کرتی ہے۔
مزید انھوں نے کہا کہ میر کے ہاں تصویریں ایسی ہیں جنھیں دانستہ طور پر اس انداز میں ادھورا رکھا جا تا ہےکہ ان کا ادھورا پن ان کو مکمل دیکھنے کے قابل بنا تا ہے۔ میر کی بنائی ہوئی تصویروں میں ایک دھندلاہٹ ہوتی ہے۔ان کی بنائی ہوئی تصویر کے خدوخال تھوڑے تھوڑے واضح ہوتے ہیں۔ دھندلاہٹ اور و ضاحت کا توازن میر کے ہاں ایک دوسرے کی طاقت بن کر سامنے آتے ہیں۔
میر ایک بڑے شاعر ہیں۔ ان کی شاعری پر اب تک کئی حوالوں سے تحقیقی و تنقیدی کام ہو چکا ہے مگر ان کی امیجری پر اب تک خاطر خواہ کام نہیں ہوا تھا۔ احمد جاوید صاحب نے اس جہت پر سیر حاصل گفتگو کر کے میر پر کیے گئے تنقیدی مطالعوں میں اضافہ بھی کیا نیز حاضرین کی علم کی جستجو کو بڑھانے میں معاونت بھی کی۔
صدرشعبہ اردو ڈاکٹر کامران عباس کاظمی نے تقریب کے اختتام پر مہمان مقرر اور حاضرین کا شکریہ ادا کیا۔ ڈین کلیہ زبان و ادب ڈاکٹر نجیبہ عارف نے احمد جاوید صاحب کو یادگاری شیلڈ پیش کی۔