Description
مذہب، سیاست ، ریاست اور سماج کے باہمی تعلق کا
متبادل بیانیہ
ڈاکٹر محمد فاروق خان
ترتیب و تدوین : ڈاکٹر حسن الامین
ایگزیکٹیو ڈائریکٹر، آئی آر ڈی
اسلام آباد
جولائی، ۲۰۲۱
مذہب خالق کائنات کی طرف سے نازل کی گئی ایک ابدی اور آفاقی سچائی ہے۔ جبکہ معاشرہ زمان ومکان کے ریفرنس سے مسلسل تبدیلی کے عمل سے گزرتاہے۔ مذہب کی ابدی تعلیمات کو جب سماج، سیاست، ریاست، معاشرت اور معیشت کے معاملات سے متعلق کیا جاتا ہے تو یہ عمل لازما انسانی تشریحات اور تعبیرات کے ذریعے سے وجود میں آتا ہے۔ اسی طرح ،سماجی و سیاسی جماعتوں ، گروہوں ، ریاستوں اور حکومتوں کے وقتی مفادات بھی ان تشریحات اور تعبیرات کا احاطہ کرتے ہیں۔ اس طرح دین کی ابدی تعلیمات اور سماج کی متغیر زمینی حقیقتوں کے درمیان کہیں توافق تو کہیں اہم اہنگی نظر آتی ہے تو کہیں عدم توازن اور تصادم۔ دنیا کے ہر ملک اور معاشرے میں مذہب اور سماج کے درمیان موافقت اور تصادم کے یہ آثار مختلف جہتوں سے پائے جاتے ہیں۔ ہمارا خطہ پاکستان اور اسی طرح دیگر مسلمان ممالک بھی مذہب کی مختلف تعبیرات اور ان کے اطلاقات کے نتیجے میں جنم لینے والی بہت سے پیچیدہ مباحث سے خالی نہیں ہے۔
کم وبیش چار برس پہلے، آئی آر ڈی نے ملک میں جاری “متبادل بیانیہ” کی بحث میں شریک ہونے کی پلاننگ کی تو زیادہ بہتر صورت یہی نظر ائی کہ اس موضوع پر مختلف اہل علم اور سکالرز کی جانب سے لکھی جانے والی تحریروں کو منظر عام پر لایا جائے جو دین کے نام پر ہونے والی خون ریزی، شدت پسندی، دہشت گردی، انتہا پسندی اور عدم برداشت کے نہ صرف ناقدانہ جائزے پر مبنی ہوں بلکہ مضبوط علمی استدلال اور عقل عام کی روشنی میں ایک بہتر متبادل تشریح و تعبیر کی حامل بھی ہوں۔ ڈاکٹر محمد فاروق خان کے مضامین پر مبنی زیرنظر مجموعہ بھی اسی طرح کی ایک کاوش ہے۔ اس کے پہلے ایڈیشن کو زبردست پذیرائی ملی جس کے لئے ہم قارئین کے مشکور ہیں۔ یہ مضامین نہ صرف یہ کہ ایک معتدل اور انسان دوست و مذہبی تعبیر کی روشنی میں لکھے گئے ہیں بلکہ ان تصورات کی روشنی میں کچھ مخصوص مسائل اور واقعات پر ناقدانہ روشنی بھی ڈالی گئ ہے۔ ظاہر ہےکہ یہ نظریات صرف آخرنہیں ہیں اور ان سے اختلاف کیا جا سکتا ہے۔
“تبادل بیانیہ” کا دوسرا اور نظر ثانی شدہ ایڈیشن پیش خدمت ہے۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ گذشتہ کچھ عرصے سے پاکستان میں “متبادل بیانیہ”کی بحث نے زور پکڑا ہے اور مختلف فکر ونظر کی حامل شخصیات اس پر اپنی اپنی نگارشات پیش کررہی ہیں۔ پاکستان میں ایک عرصے سے یہ روایت چلی آرہی ہے کہ مختلف سیاسی وعسکری مقاصد کے لیے مذہب،اس کے مآخذ اور اس کی مختلف تعبیرات کا استعمال کیا جاتا ہے، جس میں لوگ بالعموم افراط وتفریط کا شکار نظر آتے ہیں ،پھر یہ نہ صرف مسلمانوں کو نقصان پہنچاتے ہیں بلکہ خود اسلام کے لیے بھی نیک نامی کا سبب نہیں بنتے۔ متبادل بیانیوں کی موجودہ بحث کی اساس اسی نکتہ پر ہے۔
اقبال انٹر نیشنل انسٹی ٹیوٹ فار ریسرچ اینڈ ڈائیلاگ (آئی آر ڈی) نے چارسال قبل اس بحث میں حصہ لینے اور اس عنوان پر مختلف تحقیقات ومطبوعات کو منظر عام پر لانے کا فیصلہ کیا۔ اس ضمن میں آئی آر ڈی اب تک مختلف ایسی مطبوعات منظر عام پر لاچکا ہے جو ” متبادل بیانیہ” کی مختلف بحثوں کو واضح کرتی ہیں اور ان کتب کی بنیاد پر ملک کی مختلف جامعات میں اس عنوان پر باقاعدہ بحث کا آغاز ہوا ہے۔ اس سیریز میں اب تک درج ذیل عنوانات سے کتابیں چھپ چکی ہیں:
بین المسالک ہم آہنگی اور افہام وتفہیم کی حکمت عملی
مغرب سے مکالمہ
متبادل بیانیہ – سماج، ریاست اور مذہب
دیار مغرب کے مسلمان
تکفیر کے اسباب اور اصول وضوابط
شریعہ ٹوڈے
وسطیت
سیاسی اسلام؟
اسی طرح دیگر ایسی کئی کتب منصہ شہود پر آچکی ہیں۔ زیر نظر کتاب بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے اور مزید ایسی کتب اشاعت کے مراحل میں ہیں۔
یہ کتاب نہایت سلیس، عام فہم زبان اور عملی مثالوں سے بھرپور ہے، جو مذہب اور بدلتے سماج کے درمیان تعلق کو نئے زاویے سے سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کرتی ہے۔ یہ سب باتیں آج سے کئی برس قبل لکھی اور کہی گئی ہیں جبکہ آج کے دور کے بہت سے اہل علم و دانشوراب ان باتوں کو سمجھنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ آئی آر ڈی کی یہ کاوش بارآور ثابت ہوگی۔
یہ کتاب ایک ایسے صاحب عزیمت دانشور کے مضامین پر مبنی ہے جن کے لیے یہ موضوع محض ایک علمی اور فنی مشغلہ نہیں تھا، بلکہ و ہ شاخ زیتون لیکر ملک کے طول وعرض، خاص کر خیبرپختونخواہ کے گلی کوچوں، دیہاتوں، قصبوں اور شہروں میں پکار پکار کر شہادت حق کا فریضہ انجام دیتے ہوئے اپنی جان جان آفریں کے سپرد کرگئے۔ ان مضامین کے مصنف ڈاکٹر محمد فاروق خان ہیں، جن کو ان کے علمی وسماجی کام اور دہشت گردی اور انتہاپسندی کے کلاف بولنے اور لکھنے کی یاداش میں اکتوبر 2010 میں مردان میں اپنے کلینک میں شہید کیا گیا۔
آئی آر ڈی کی طرف سے صلائے عام ہے یاران نکتہ داں کے لیے کہ وہ اس عنوان پر اپنی یا اپنے جاننے والے اہل علم کی تحقیقات و غیرمطبوعہ مواد سے ہمیں آگاہ کریں تاکہ ہم اسے شائع کرنے کا اہتمام کرسکیں۔”متبادلہ بیانیہ” کی بحث کو سمجھنا اور اسے سمجھ کر عام آدمی تک پہنچانا ہماری ذمہ داری ہے کیونکہ معاشرے کو اس وقت “متبادل بیانیہ” کی جتنی آج ضرورت ہے، شاید پہلے کبھی نہیں رہی۔مذہب کا استحصال روکنا ضروری ہے اور مذہب کی بے بنیاد تعبیرات سے پیدا ہونے والے تکفیر، خروج اور قتال جیسے مسائل سےملک و ملت کی حفاظت بھی ضروری ہے۔
Reviews
There are no reviews yet.